ء تک روشنی خارج کرنے والے وال پیپر کا استعمال شروع ہوسکتا ہے: کاربن ٹرسٹj 2012
پاکستان اور کئی دوسرے ان ملکوں میں رہنے والوں کے لیے، جنہیں آئے روز لوڈ شیڈنگ اور بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ خبر دلچسپی کاباعث ہوگی کہ سائنس دان ایک ایسا وال پیپر تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو روشنی خارج کرتا ہے۔ دیواروں پر یہ مخصوص وال پیپر لگانے کے بعد کمرے کو روشن کرنے کے لیے بجلی کے بلب، گیس کے لیمپ، لالٹین یا موم بتی وغیرہ جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
کاربن کے کم اخراج کی ٹیکنالوجی کے لیے کام کرنے والے برطانیہ کے ایک سرکاری ادارے’کاربن ٹرسٹ‘ کا کہناہے کہ 2012ء تک روشنی خارج کرنے والے اس وال پیپر کا استعمال شروع ہوسکتا ہے جس سے کمرے میں روشنی کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے وال پیپر پر ایک مخصوص کیمیائی مادہ لگایا گیا ہے۔ وال پیپر کو جب دیوار پر لگایا جاتا ہے اس سے نکلنے والی روشنی کمرے میں ہر جگہ یکسانیت کے ساتھ پھیل جاتی ہے جس سے سایہ وغیرہ بھی نہیں بنتا جیسا کہ بجلی کے عام بلب کی روشنی سے بنتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ وال پیپر پر لگے ہوئے کیمیائی مادے سے روشنی پیدا کرنے کے لیے اسے برقی رو کی ضرورت ہوگی لیکن ایسا کرنے سے بہت ہی کم بجلی صرف ہوگی یعنی تقریباً تین وولٹ، جو ایک عام بیٹری سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ معمولی برقی قوت کے باعث دیوارکو چھونے سے کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا نہ ہی کوئی برقی جھٹکا محسوس ہوگا۔ روشنی کی مقدار کم یا زیادہ کرنے کے لیے وہ عام بٹن جنہیں ڈمر کہا جاتا ہے، استعمال کیے جاسکیں گے۔
کاربن ٹرسٹ نے روشنی فراہم کرنے والے وال پیپر کی تیاری کے لئے ’لوموکس ‘ نامی کمپنی کو ساڑھے چارلاکھ پونڈ سے زیادہ کا فنڈ دیا ہے۔ یہ کمپنی کچھ عرصے سےنامیاتی روشنی خارج کرنے والے ڈائیوڈز ٹیکنالوجی پر تحقیق کررہی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والا وال پیپر، موجودہ دور کے انرجی سیونگ قمقموں سے ڈھائی گنا کم توانائی استعمال کرے گا۔ جس سے حکومت کے اس ہدف کو پورا کرنے میں مدد ملے گی جس کے تحت برطانیہ 2020ء تک ملک میں کاربن گیسوں کے اخراج میں 34 فی صد تک کمی کرنا چاہتا ہے۔ برطانیہ میں پیدا ہونے والی بجلی کا چھٹا حصہ عمارتوں کے اندورنی حصوں کو روشن کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روشنی دینے والے مخصوص کیمیائی مادے کو وال پیپر کی بجائے براہ راست دیواروں پر لگاکر انہیں روشن کیا جاسکتا ہے۔ اس مادے کا استعمال ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فونز کی سکرینوں پر بھی کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ نئی ایجاد کا ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ ر وشنی فراہم کرنے کا پورا نظام تین سے پانچ وولٹ کی برقی قوت پر کام کرتا ہے۔ جب کہ ایک عام بلب کو روشن کرنے کے لیے پاکستان اور اکثر دوسرے ملکوں میں 220 وولٹ اور امریکہ میں110 وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ چونکہ وال پیپر کو بہت کم مقدار میں بجلی درکار ہوگی، اس لیے یہ ضرورت عام بیٹری یا گھر کی چھت پر شمسی توانائی کے پینل لگاکر باآسانی پوری کی جاسکے گی۔
نئی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی کمپنی لوموکس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے مرحلے میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال سڑکوں پر نصب ان نشانات اور اشاروں کو روشن کرنے کے لیے کرے گی، جہاں بجلی موجود نہیں ہے۔
کمپنی کے سربراہ کین لیسی کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس نئی ایجاد کو 2012ء میں فروخت کے لیے پیش کردیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کیمیائی مادے سے خارج ہونے والی روشنی سورج کی روشنی جیسی ہے جس میں قدرتی روشنی میں پائے جانے والے تمام رنگ موجود ہیں۔
اگرچہ روشنی خارج کرنے والے اورگینک ڈائیوڈ جنہیں ایل ای ڈی بھی کہاجاتا ہے، کئ برسوں سے انسان کے زیر استعمال ہیں، تاہم مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اپنی قیمت اور پائیداری کے باعث ان پرمزید تحقیقی کام رک گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی کمپنی، ایل ای ڈی سے کہیں زیادہ سستی اور پائیدار ٹیکنالوجی ایجاد کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
مسٹر لیسی کہتے ہیں کہ اس نئی ٹیکنالوجی کی بدولت ایسی سکرینیں بنانے کی راہ ہموار ہوگئی ہے جنہیں کاغذ کی طرح لپیٹا جاسکے گا۔ اور انہیں رول کی شکل میں لپیٹ کر آپ کہیں بھی لے جاسکیں گے۔
کاربن کی گیسوں کا اخراج کم کرنے سے متعلق ادارے ’ کاربن ٹرسٹ ‘ کے ڈائریکٹر مارک ولیم سن کہتے ہیں کہ کاربن گیسوں کے اخراج کی ایک بڑی وجہ روشنی کا حصول ہے۔ کیونکہ عمارتوں کو روشن رکھنے کے لیے بجلی کا ایک بڑا حصہ استعمال ہوتا ہے اور زیادہ تر پاور ہاؤس، کوئلے اور معدنی ایندھن سے چلتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت زیادہ توانائی بچانے والی یہ ٹیکنالوجی عالمی مارکیٹ میں بہت جلد اپنے لیے جگہ بنا لے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ایجاد ماحول دوست ٹیکنالوجی کی جانب ایک اہم پیش رفت ہے۔
No comments:
Post a Comment